یمن کے کسی شہر میں ایک شریف اور ماہر درزی تھا ایک روز مارکیٹ میں اس کا کپڑا چوری ہوگیا

بہت عرصہ پہلے کا ذکر ہے ملک یمن کے کسی شہر میں ایک بہت نیک اور شریف آدمی رہا کرتا تھا یہ آدمی ایک ماہر درزی تھا ۔اس کے ہاتھوں کے سلے ہوئے کپڑوں کی شہر میں بڑی دھوم تھی ۔اس کا پورانام توکوئی نہیں جانتا تھا مگر لوگ اسے علی کہا کرتے تھے اوروہ اسی نام سے مشہور تھا ۔ وہ زیادہ

تر امیر خواتین کیلئے قیمتی ملبوسات سیا کرتا تھا جو بہترین سلک سے بنائے جاتے تھے ۔ ان ملبوسات کے لیے وہ کپڑا بھی خود ہی خریدا کرتا تھا۔ایک روز علی کپڑا خریدنے کے لئے مارکیٹ گیا جس کپڑے کی تلاشی میں وہ مارکیٹ پہنچا تھا اس کپڑے سے اسے ایک امیر تاجر کی بیٹی کیلئے شادی کا لباس تیار کرنا تھا۔ کافی دیر گھومنے کےبعداسے دلہن کے لباس کیلئے ایک کپڑا پسند آیا اس نے وہ کپڑا خرید کر اپنی ہاتھ گاڑی میں رکھ لیا یہ ہاتھ گاڑی ایک لکڑی سے بنی ٹرالی نما چیز ہوا کرتی تھی۔ جس میں لوگ اپنا سامان خرید خرید کررکھتے تھے ہاتھ گاڑی میں کپڑا رکھنے کے بعد علی اپنی پسند کا کوئی دوسرا کپڑا تلاش کرنے لگا مگر جب وہ دوسرا کپڑا خرید کر اپنی ہاتھ گاڑی کی جانب مڑا تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھی علی نے ہر طرف اپنی گاڑی دھونڈی مگر اس کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔ وہ خوب چیخا چلایا راہ چلتے لوگوں سے پوچھا مگر کوئی اس کی گاڑی کے بارے میں کچھ نہ بتا سکا چوری کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی ۔کچھ ہی دیر بعد ہر ایک شخص اس چوری کے بارے میں باتیں کررہا تھا کہ آخر یہ کام کس کا

ہوسکتا ہے علی کو اداس اور پریشان دیکھ کر اس کے چند چند دوست شہر کے مشہو ر قاضی عمر کریم کے پاس پہنچے عمر کریم کے انصاف کا چرچا دور تک تھا وہ حیرت انگیز طور پر مشکل سے مشکل مقدمے کا حل ڈھونڈ نکالتا لہذا اس کی ذہانت کے سب قائل تھے۔عمر کریم نے علی کو عدال تمیں بلایا اس کی چوری کی تفصیل سنی۔ ساری باتیں انتہائی غور سے سننے کے بعد قاضی عمر کریم نے ان تمام لوگوں کو عدالت میں پیش ہونے کاحکم دیا ۔جو چوری کے وقت علی کے ساتھ مارکیٹ میں موجود تھے ۔ ان میں مارکیٹ کے دکانداروں کے ساتھ ساتھ عام خریدار بھی شامل تھے ۔ جب تمام لوگ عدالت میں پہنچے تو قاضی عمر کریم نے عدالت کی کارروائی شروع کی ۔ کارروائی شروع کرنے سے پہلے اس نے اچھی طرح اس بات کی تسلی کرلی تھی کہ تمام افراد وہاں موجود تھے یا نہیں ۔ سب لوگ عدالت کے کمرے میں ادب کے ساتھ خاموش بیٹھے تھے کیوں کہ وہ سب قاضی کابڑا احترام کرتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اس وقت مقدمے پر غوروخوض کررہا تھا قاضی نے خاموشی کے ساتھ بار باری ان سب کے چہروںپر ایک نظر ڈالی اور چند

لمحوں کے بعد عدالت کے باہر کھڑے سپاہیوں کو بلایا ۔ سارے سپاہی فوراً ہی قاضی صاحب کے سامنے حاضر ہوئے ۔ قاضی نے ان سپاہیوں کو حکم دیا کہ مارکیٹ کے باہر چوک میں لگے محافظ سپاہی کے مجسمے کو گرفتار کرکے یہاں لاؤ کیونکہ اس نے اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دی ہے اس کی موجودگی میں یہ چوری کیسے ہوگی تمام سپاہی حیرت سے قاضی کا منہ تکنے لگے بالآخر ان میں سے ایک نے ہمت کرکے کہا جناب آپ ایک پتھر کے مجسمے کو گرفتار کرنے کا حکم دے رہے ہیں ہاں قاضی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔ اس حکم کی تعمیل کرو ۔ سپاہی اس حکم کی تعمیل میں روانہ ہے اور چونک میں نصب محافظ سپاہی کے مجسمے کو رسیوں سے باندھ کر عدالت میں اٹھا لائے ۔ مجسمے کو رسیوں سے جکڑا دیکھ کر ہنسنے لگے اور ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ شاید قاضی پاگل ہوگیا ہے ۔ خود علی کی بھی بے اختیار زورسے ہنسی نکل گئی اس کو ہنستا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے۔ان سب کی ہنسی روکے نہیں رک رہی تھی ۔ قاضی چند لمحوں تک خاموشی کے ساتھ سب کو دیکھتا رہا پھر وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور بلند آواز میں حکم دیا خاموش عدالت کی کارروائی شروع ہوچکی ہے سب لوگوں نے قاضی کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھا اور ایک دم خاموش ہوگئے ۔ تم سب نے عدالت کی توہین کی ہے ۔ قاضی نے غصے سے کہا لہذا تم سب کو اس جرم کی پاداش میں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ اب تمام

لوگ اپنی اپنی گردنیں جھکائے خاموش بیٹھے تھے کہ قاضی ان کیلئے کیا سزا تجویز کرتا ہے کچھ دیر سوچنے کے بعد قاضی نے کہا جرمانہ یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اس وقت عدالت میں کپڑے کا ایک ایک ٹکڑا جمع کرانا ہوگا عدالت میں موجود تمام لوگوں نے سکون کی سانس لی ۔عدالت کے سپاہی ہر ایک شخص کے پاس جاکر کپڑے کا ٹکڑا وصول کرنے لگے کسی نے اپنے لباس کو نہ پھاڑ کردیا تو کسی نے اپنا رومال جرمانے مٰں پیش کردیا علی غور سے اس تمام کارروائی کاجائزہ لے رہا تھا لیکن اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا تھا مگر پھر اچانک ہی وہ چلایا یہ میرا کپڑا ہے اس کی نظریں ایک شخص کے ہاتھ میں دبے سلک کے ایک ننھے سے ٹکڑے پر جمی ہوئی تھیں۔جسے وہ سپاہی کو پیش کرنے جارہا تھا یہ اسی کپڑے کا ٹکڑا جو میرے پاس سے چوری ہواتھا۔ علی نے کہا دکاندار نے مجھے بتایا تھا کہ اس ڈیزائن کا کپڑا کہیں اور نہیں ملے گا کیوں کہ اس کا ایک دوست چین سے یہ ایک ہی سوٹ کا کپڑا لایا تھا اس کا مطلب ہے کہ ہم نے چور کو تلاش کرلیا ہے ۔ اب تمہیں اس چوری کی سزادی جائیگی۔قاضی چور سے مخاطب ہوا اور اس محافظ سپاہی کے مجسمے کو اس کی جگہ واپس پہنچا دیا جائیگا تاکہ وہ تم جیسے مجرموں کو پکڑنے میں ہماری مد د کرے قاضی کے ان الفاظ کے ساتھ ہی سپاہی اس مجسمے کو اٹھا کر لے گئے اور اسے اس کی صحیح جگہ پر رکھ دیا کہتے ہیں کہ آج بھی اس مجسمے کے گرد کچھ بوسیدہ سی رسیاں بندھی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.