
قرآن پا ک میں حمل کے بارے میں کیا فرمایا گیا ہے؟
آج کا ہماراموضوع حمل اور ولادت پر قرآنی آیات۔ وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے۔ اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر وہی اس نے جان سے جوڑا بنایا اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نراور مادہ پیداکیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر
تمہیں ایک بعد ایک شکل دیتا چلا جاتاہے۔ وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیداکیا۔ پھر نطفے سے، پھرخون کی لوتھڑے سے ، پھر تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے۔ پھر تمہیں بڑھاتا ہے۔ تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ۔ اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو۔ اور تم میں سے پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتاہے۔ تاکہ تم اپنے مقرر وقت پر پہنچ جاؤ۔ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔ اس نے زمین اور آسمان کو برحق پیدا کیا ہے۔ اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے۔ اوراسی طرف آخر کا ر تم کو پلٹنا ہے۔ منی میں چھوٹے چھوٹے جرثومے ہوتےہیں۔ جنہیں انگلش میں سپر مز کہتے ہیں۔ وہ منی کے ایک قطرے میں ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ ان میں ہلنے جلنے کی قوت ہوتی ہے۔ عورت کے جسم میں ایک چھوٹا سا غدود ہوتاہےجو ایک بادام کی شکل کاہوتاہے۔ اور اتنا ہی بڑا وہ بچہ دانی کے دونوں طرف ایک ایک ہوتاہے۔ اس کا رابطہ بچہ دانی
سے ایک نالی کےذریعے ہوتاہے۔ اس غدود کو اووری کہتے ہیں۔ ہر غدوود میں ہر ماہ ایک عدد انڈہ پیدا ہوتاہے۔ جو ایک پن کے موٹے حصے کے برابر ہوتا ہے ۔ یہ دونوں انڈے نالی کےذریعے بچہ دانی میں چلے جاتے ہیں۔ ادھر مرد کا نطفہ یاجرثومہ ہل ہل کر بچہ دانی میں گھس جاتا ہے اور وہاں ان دونوں کا میلا پ ہوجاتا ہے۔ اگر انڈہ وہاں نہ پہنچ سکے۔ یا پہنچ جائے۔ مگر نطفے سے مل نہ سکے۔ پھر حمل نہیں ہوتا ۔ یعنی بچہ نہیں بنتا۔ اگر انڈہ اور نطفہ مل جائے تو نظفہ انڈے کے اندر گھس جاتا ہے۔ اور پھر بچے کی پیدائش کا آغاز ہوجاتاہے۔ یہ انڈہ ماہواری کے تقریباً دس سے پندرہ دن بعد پیدا ہوتاہے۔ اور پیدائش کے تین دن تک اس قابل رہتا ہے کہ نطفہ مل جائے اور بچہ بن جاتاہے۔ اگر استقرار حمل مقصود ہو تو مباشرت کا سب سے اچھا وقت ماہواری کے دس پندر ہ دن بعد ہے۔ اگر اس سے بچنا مقصود ہو تو ماہواری سے ایک ہفتہ قبل سے لے کر ماہواری سے ایک ہفتہ بعد تک سب سے
بہتر ہے۔ بچہ دانی میں جب انڈے اور نطفے کا میلاپ ہوجائے تو اس کے بعد بچے کو مکمل ہونے میں نو مہینے لگتے ہیں۔ اس دوران ماں کا پیٹ پھول جاتا ہے۔ پھر اس کی پیدائش کا وقت آتاہے۔ بچہ ماں کے پیشاب کے جگہ انہدام دانی سے نکلتاہے۔ زچگی یعنی بچے کی پیدائش کے وقت قدرت بچہ دانی سے باہر تک کی نالی کو اتنا نرم اور لچکدار کردیتی ہے۔ کہ بچہ اس میں سے گزرسکے۔ اور بچہ دانی زور زور سکڑ کر بچے کو دھکیلتی ہوئی باہر نکال دیتی ہے۔ پیٹ کے پٹھے بھی زور سے سکڑ تے ہیں۔ اور بچے کوباہرنکالنے میں مدددیتے ہیں۔ عموماً پیدائش کے وقت پہلے بچے کا سر نکلتا ہے۔ پھر چہرہ نظرآتاہے۔ اسکے بعد کندھے ایک ایک کرکے باہرآتے ہیں۔ اور پھر پور اجسم اورٹانگیں باہر آجاتی ہیں۔ جب بچہ پورا باہر آتاہے تو فوراً سانس
لیتاہے۔ اور رونے لگتا ہے کیونکہ ماں کے پیٹ میں وہ سانس نہیں لیتا۔ اس کی غذا ایک نالی کے ذریعے ماں کے خ ون کی صورت میں اس کے ناف میں پہنچتی تھی۔ یہ نالی دونوں طرف سے باندھ دی جاتی ہے۔ اور پھر بیچ سے کاٹ دی جاتی ہے۔ اور اب بچہ ماں سے علیحدہ کیاجاسکتاہے۔ اگر انڈہ اور سپرمز کا میلاپ نہ ہو تو بچہ دانی کے اندر جھلی اکھڑنے لگتی ہے۔ اور تھوڑے خ ون کے ساتھ مل کر رحم سے ٹکڑ ے ٹکڑے ہوکر باہر آنےلگتی ہے اس کو حیض کہتے ہیں۔ غیر حاملہ خواتین یہ خ ون ہرماہ آتا ہے۔ یہ دس سے گیارہ سال کی عمر میں آنا شروع ہوتاہے۔ اور پچاس پچپن سال تک آتارہتاہے۔ پھر بند ہوجاتاہے۔ یہ عموما ً چار پانچ دن آتا ہے۔اور تھوڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ اگر دن زیادہ ہوجائیں یا مقدار بہت ہوجائے تو ڈاکٹر ز سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ اس زمانے میں پیٹ اور جسم میں تھوڑا درد بھی ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی سمجھ عطافرمائےاور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین