میں نوجوان لڑکی ہوں

میں نوجوان لڑکی ہوں اور خود ل۔ذتی کی بیماری میں مبتلا ہوں، میں نے کئی بار اس برائی کو چھوڑا ہے لیکن دوبارہ پھر اس میں مبتلا ہو جاتی ہوں، میں نے کئی بات توبہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن پھر دوبارہ اسی غلطی میں مبتلا ہو جاتی ہوں،لیکن جب بھی غلطی کر تی ہوں تو مجھے بہت زیادہ دکھ

اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے. تو کیا اس گناہ سے بچنے کیلیے کوئی کار آمد طریقہ ہے؟ کہ میں دوبارہ اس کام میں ملوث نہ ہو سکوں، اور کیا اللہ تعالی میری توبہ قبول فرماتا ہے؟میں نے خود ل۔ ذتی کی جگہ پر کئی بار اپنے آپ کو جلانے کی کوشش بھی کی لیکن میں پھر دوبارہ اسی میں مبتلا ہو جاتی ہوں! جواب: یہ بات واضح ہے کہ: اللہ تعالی نے انسان کو پیداانسان کو پیدا فرمایا اور اس میں ش۔ہوت بھی رکھی ہے، اللہ تعالی کو شہ۔وت کے مقابلے میں انسان کی کمزوری کا علم ہے، اسی لیے ہمارے لیے ایسے شرعی بندوبست کئے جن کی وجہ سے ہم حرام کاموں میں ملوث ہونے سے بچ سکتے ہیں- پھر اگر کوئی حرام میں ملوث ہو بھی جائے تو اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس کا علاج بھی مہیا فرمایا تا کہ جہاں ہم غفلت اور بے راہ روی میں لتھڑے ہوئے نفس امارہ اور شیطانی چالوں کی وجہ سے گناہ کے راستے پر چل نکلے تھے وہاں سے واپس لوٹ آئیں. ایسی صورت حال میں خیر و

بھلائی اور نجات کا بنیادی ذریعہ یہ ہے کہ: گناہ میں ملوث ہونے سے پہلے ہی نفس کا مقابلہ کریں، تمام ایسے امور سے دور ہو جائیں جو انسان کو گناہ پر ابھار سکتے ہیں یا گناہ کیلیے معاون بن سکتے ہیں، یا گناہ کو اچھا بنا کر پیش کر سکتے ہیں، تو انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا دین بچا کر رکھے اور اللہ تعالی سے لو لگائے، نفس امارہ سے دور بھاگے، برے دوستوں اور برے ماحول سے بچے، اللہ تعالی کے ع۔ذاب سے ڈر کر رحمت اور رضائے الہی کی جستجو میں لگا رہے. اور اگر پھر بھی گناہ۔ میں ملوث ہو جائے تو اب اس کا علاج صرفیہی ہے کہ سچی اور پکی توبہ کرے، فوری اور لازمی طور پر اللہ تعالی سےاپنا ٹوٹا ہوا رابطہ استوار کرے، اس سے پہلے کہ موت اس کی توبہ کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور وہ گن۔ اہ کی حالت میں ہی یہاں سے چل بسے. صحیح بخاری: (7065) اور مسلم: (2758) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے حدیث قدسی بیان فرمائی: اللہ تعالی فرماتا ہے: کوئی بندہ گناہ کرے اور پھر کہے: یا اللہ! میرا یہ گناہ معاف فرما دے

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.