
مدینہ منوّرہ کی سرد رات
این این ایس نیوز! یہ ایک سرد رات کی بات ہے جب مدینہ منوّرہ میں موسم عروج پر تھا۔اِنسان تو اِنسان،جانور اور چرند پرند بھی اپنے اپنے گھروں میں سردی سے بچنے کے لیے دَبکے ہوئے تھے۔سخت سردی کے ساتھ ساتھ رات کی تاریکی نے ماحول کو مزید ڈراؤنا بنا دیا تھا۔ہر طرف سنّاٹا چھایا ہُوا تھا اور
ایسے وقت میں باہر نِکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ: ” ایسے سخت موسم میں بھی مدینہ منوّرہ کے دو مُقِیم افراد علاقائی دورہ کرنے نِکل کھڑے ہوئے،دونوں کو ایک نظر دیکھنے سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک شاید آقا ہے اور دوسرا خادم۔البتہ دونوں کے ظاہری حُلیے اور لباس میں کوئی ایسا خاص فرق نہ تھا جو اس امتیاز کو واضح کرتا۔شاید اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آقا نے کوئی خاص لباس زیب تن نہ کِیا تھا اور دوسری وجہ آقا کا اپنے خادم سے گُفتگُو کرنے کا مُہذّب اور پیارا انداز تھا جو اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ اس آقا نے کبھی اپنے خادم پر اپنی برتری جتانے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ان دونوں کے چلنے کا انداز اس بات کی طرف اِشارہ کرتا تھا کہ دونوں فقط چہل قدمی کے لیے اس وقت باہر نہیں نِکلے بلکہ ضرور کوئی خاص مقصد پیشِ نظر ہے۔ہاں کسی خوف اور شدید سردی کی پرواہ کیے بغیر اس طرح ان کا باہر نِکلنا شاید ان کے روزانہ یا ہر دوسرے روز کا معمول تھا۔بہرحال آقا اور خادم دونوں مدینہء منوّرہ کی گلیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے مدینہ منوّرہ سے تقریباً تین میل دُور مشرق میں ” حَرَّ وَاقِم ” ( حَرَّہ اس زمین کو کہتے ہیں جہاں جلے ہوئے سیاہ رنگ کے پتّھروں کی کثرت ہو ) تک نِکل آئے۔چلتے چلتے دونوں اچانک
رُک گئے۔اِن دونوں کے رُکنے کی وجہ بہت دُور ایک خیمہ تھا جس میں آگ جل رہی تھی۔ ” آقا نے اپنے خادم کی طرف دیکھ کر کہا: ” اے اسلم! اتنی سخت سردی میں کون ہو سکتا ہے؟ ” اسلم نے اپنی لاعِلمی کا اِظہار کِیا تو آقا نے کہا: ” میرا خیال ہے شاید کوئی قافِلہ ہے،رات اور سردی کی وجہ سے یہیں ٹھہر گیا ہو گا۔آؤ چل کر دیکھتے ہیں کیا معاملہ ہے؟ ” دونوں چلتے ہوئے جیسے ہی خیمے کے قریب پہنچے تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ: ” وہ کوئی خیمہ نہیں بلکہ ایک ٹُوٹا پُھوٹا کچّا گھر ہے اور اس میں کوئی قافِلہ وغیرہ نہیں تھا بلکہ وہاں تو ایک خاتون اپنے ننّھے مُنّے بچّوں کے ساتھ مُقِیم تھی جس نے چولہے پر ایک ہنڈیا چڑھا رکھی تھی جیسے کھانا پکا رہی ہو اور بچّے اس کے ساتھ بیٹھے مسلسل رو رہے تھے۔غالباً انہیں بُھوک لگی تھی۔ ” آقا نے سلام کِیا تو اس خاتون نے دونوں کی طرف توجہ کیے بغیر سلام کا جواب دیا۔ آقا نے گھر میں داخل ہونے کی اِجازت طلب کرتے ہوئے کہا: ” کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ ” خاتون نے جواب دیا: ” اگر کسی خیر کا اِرادہ ہے آؤ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔ ” غالباً وہ خاتون بہت دُکھی تھی اس لیے بے رُخی سے جواب دے رہی تھی۔لیکن آقا کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ اس دُکھی خاتون کے دُکھ میں شریک ہونا چاہتا ہے۔اس نے
خاتون سے اِستِفسار کِیا: ” اے بی بی! تم کون ہو اور یہ بچّے کیوں رو رہے ہیں؟ ” خاتون نے جواب دیا: ” میں مدینہ منوّرہ کی رہائشی ہوں،ان بچوں کو شدید بُھوک لگی ہے اور یہ اسی وجہ سے رو رہے ہیں۔ ” آقا نے کہا: ” اس ہنڈیا میں کیا ہے؟ ” خاتون نے کہا: ” اس میں تو صرف پانی ہے،میں نے بچّوں کا دِل بہلانے کے لیے اسے آگ پر چڑھا رکھا ہے تاکہ کھانا پکنے کے اِنتظار میں بچّے سو جائیں۔ ” پَِھر اس دُکھیاری خاتون نے اپنے دِل کا درد بیان کرتے ہوئے کہا: ” میں ایک غریب عورت ہوں،میرے پاس اتنے اخراجات نہیں کہ اپنے بچّوں کو کھانا کِھلا سکوں،ان کا دِل بہلا رہی ہوں،لیکن امیرالمؤمنین کو ہماری کوئی خبر نہیں،ہم ان کے محکُوم ہیں،ان کی رعایا ہیں،ان کا حق بنتا ہے کہ وہ ہمارا خیال رکھیں،خیر کوئی بات نہیں ہمارا وقت تو جیسے تیسے گُزر ہی جائے گا لیکن کل بروزِ قیامت امیرالمؤمنین اور ہمارے درمیان اللّہ ہی فیصلہ فرمائے گا اور یقیناً آخرت کی پکڑ بہت سخت ہے۔ ” آقا نے اس دُکھیاری خاتون کا درد سُنا تو وہ بھی آبدِیدہ ہو گیا اور نرم لہجے میں کہنے لگا: ” اے بی بی! اللّہ تم پر رحم فرمائے،تمہاری مُصیبتیں اور پریشانیاں دُور فرمائے،لیکن امیرالمؤمنین کو کیا معلوم کہ تم یہاں اِس حال میں ہو؟ ” خاتون نے سوالیہ لہجے میں کہا: ” وہ ہمارا حاکم ہے اور ہم
سے غافل ہے؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں؟ ” بہرحال آقا اس دُکھیاری خاتون کی حالتِ زار سُن کر اس کے گھر سے باہر آ گیا اور اپنے خادم اسلم سے کہا: ” میرے ساتھ جلدی چلو۔ ” پِھر دونوں تیزی سے چلتے ہوئے مدینہ منوّرہ کی اندرونی آبادی کی طرف روانہ ہو گئے۔آقا بہت گہری سوچ میں گُم تھا کیونکہ اس خاتون کی حالتِ زار اور اس کی بیان کی گئی آپ بِیتی نے آقا کی ذات پر بڑے گہرے نُقُوش چھوڑے تھے،جو آقا پہلے اپنے خادم سے گُفتگُو کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا اب وہی آقا خاموشی کی چادر تانے تیزی کے ساتھ رواں دواں تھا۔تھوڑی دیر کے بعد دونوں ایک غلّے کے گودام کے قریب کھڑے تھے،خادم نے دروازہ کھولا،آقا نے جلدی سے ایک بوری آٹا،کھجوریں،کچھ رقم اور کھانا پکانے کے دیگر لوازمات ساتھ لیے اور خادم سے کہا: ” اسلم! انہیں میری پیٹھ پر لاد دو۔ ” خادم نے بڑی عاجزی سے عرض کِیا: ” حضور! آپ مجھے حُکم فرمائیں میں اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر خاتون تک پہنچا دوں گا۔ ”آقا نے خادم کی طرف دیکھا اور آہِ سرد دِل پُردرد سے کھینچ کر کہا:” آہ۔۔۔! آج اس دنیا میں تو تُو میرے حِصّے کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد لے گا،میری تکلیف کو برداشت کر لے گا لیکن یاد کر اس دن کو جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں
اُٹھائے گی اور کسی کی تکلیف دوسرے کو نہیں دی جائے گی،کیا اُس دن بھی تُو ہی میرا بوجھ اُٹھائے گا؟ ” خادم اپنے آقا کا فِکرِ آخرت سے بھرپور جواب سُن کر خاموش ہو گیا اور حُکم کی تعمیل کرتے ہوئے سارا سامان آقا کی پیٹھ پر ڈال دیا۔دونوں ایک بار پِھر مدینہ منوّرہ سے باہر اس دُکھیاری خاتون کے گھر کی طرف رواں دواں تھے۔تھوڑی دیر کے بعد دونوں گھر تک پہنچ گئے،خاتون ان دونوں کو سامان کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گئی۔آقا نے وہ سارا سامان اُتارا اور آٹے کی بوری کھول کر اس خاتون سے کہا:” اس میں سے آٹا نِکالو اور اس پر نمک ڈالو تاکہ میں حَرِیرَہ ( آٹے سے بنایا جانے والا کھانا ) بناؤں۔ ” پِھر آقا ہنڈیا کے نیچے آگ پھونکنے لگا،یہاں تک کہ دُھواں اس کی داڑھی کے درمیان سے نِکلنے لگا۔آقا ساتھ ساتھ آگ بھی جلاتا رہا اور کھانا بھی پکاتا رہا،بِلآخر کھانا پک کر تیار ہو گیا۔آقا نے ہنڈیا کو چولہے سے نیچے اُتارا اور خاتون سے کہا: ” کوئی بڑا اور کُھلا برتن لاؤ۔ ”وہ خاتون ایک بڑا سا پیالہ لے آئی۔آقا نے اس میں کھانا ڈالا اور اپنے ہاتھوں سے اسے ٹھنڈا کرنے لگا۔جب کھانا ٹھنڈا ہو گیا تو اس نے بچّوں کو اپنے قریب کر کے اپنے ہاتھوں سے کِھلانا شروع کر دیا۔یہاں تک کہ سب بچّوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا اور خوش ہو گئے۔پِھر اس نے بچّوں کی دِل جوئی
کے لیے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا،بچّوں کی خوشی میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ کھیلتے کھیلتے سو گئے۔آقا بقیہ کھانا خاتون کے پاس چھوڑ کر اپنے خادم اسلم کے پاس آ کر اس طرح بیٹھ گیا گویا اسے قلبی سکون مِل گیا ہو اس کے کندھے سے ایک بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو۔وہ خاتون اس کی طرف مُتوجِّہ ہوئی اور کہنے لگی: ” تم اتنے شفیق اور رحم دِل ہو،اس مُصیبت کی گھڑی میں تم نے ہماری مدد کی،میرے روتے ہوئے بچّوں کے چہروں پر مُسکراہٹ کے موتی بکھیرے،میں کس مُنہ سے تمہارا شُکریہ ادا کروں؟ اللّہ ہی تمہیں اس کی بہتر جزا عطا فرمائے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تم ہی امیرالمؤمنین بننے کے حق دار ہو۔ ” اسلم دیکھ رہا تھا کہ اب اس خاتون کے لہجے میں واضح تبدیلی آ چُکی تھی اور وہ دِل سے بہت خوش دِکھائی دے رہی تھی۔اس آقا کی جگہ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو وہ اپنی اس تعریف پر پُھولا نہ سماتا اور لوگوں میں جا کر سینہ چوڑا کر کے اپنے اس کارنامے کو بیان کرتا لیکن اس آقا نے تو اِن تعریفی کلمات پر بالکل تَوَجُّہ نہ دی بلکہ کہنے لگا: ” اے بی بی! جیسا تم کہہ رہی ہو ویسا بالکل نہیں،میں اور امیرالمؤمنین بننے کا حق دار! یہ تو بڑی عجیب بات ہے،ہاں ایک بات ضرور ہے اگر تم کبھی امیرالمؤمنین کے دربار میں آؤ گی تو مجھے وہاں ضرور
دیکھو گی۔ ” پِھر آقا اللّہ کا شُکر ادا کرتے ہوئے اُٹھا اور اپنے خادم اسلم کی طرف مُتَوَجِّہ ہو کہنے لگا: ” اے اسلم! بُھوک نے ان ننّھے مُنّے بچّوں کو جگا رکھا تھا اور بُھوک ہی انہیں مسلسل رُلا رہی تھی۔جب میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو مجھے اپنے بچّے یاد آ گئے اور میں نے اپنے دِل میں تہیّہ کر لیا کہ جب تک ان بچّوں کی بُھوک کو شکم سیری،رونے کو ہنسنے اور اُن کے غم کو خوشی و مسرّت میں تبدیل نہ کر دوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا اور نہ ہی واپس اپنے گھر جاؤں گا اور اللّہ کا شُکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ ” بہرحال آقا اور خادم دونوں مدینہ منوّرہ کی مُبارک گلیوں سے ہوتے ہوئے واپس اپنے گھر آ گئے۔ ( کنزالعمال،کتاب الفضائل،فضائل الصحابۃ،الجزء،12،جِلد 6،صفحہ،289،حدیث:35973 ) مذکورہ حِکایت کو پڑھ کر ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: ” مدینہ منوّرہ کی سخت سردی کی رات میں یہ کون تھا؟ جو اپنے خادم کے ساتھ شہرِ مدینہ کا دورہ کرنے باہر نِکلا،یہ کون تھا؟ جس نے اپنے اور خادم کے درمیان ہر اِمتیاز کو ختم کر دیا تھا،یہ کون تھا؟ جو اپنے خادم کے ساتھ بھی حُسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آتا تھا،یہ کون تھا؟ جس کے دِل میں پیارے آقا صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی دُکھیاری اُمّت کی خیرخواہی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا،یہ کون تھا؟ جس نے رات گئے ایک غریب و نادار عورت اور اس کے روتے بچّوں میں خوشیاں تقسیم کیں،یہ کون تھا؟ جس کے ہر لفظ سے خوفِ خدا ظاہر ہوتا تھا،یہ کون تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے بچّوں کو کھانا کِھلایا،یہ کون تھا؟ جس نے بچّوں کے ساتھ دِل جوئی کی اور انہیں خوش کِیا،یہ کون تھا؟ جس کے عمل کو دیکھ کر وہ خاتون بھی بے ساختہ پُکار اُٹھی کہ تم ہی امیرالمؤمنین ہونے کے حق دار ہو۔ ” پیارے آقا صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی دُکھیاری اُمّت کی خیرخواہی کا عظیم جذبہ رکھنے والا یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ خلیفہء ثانی امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللّہ عنہُ تھے۔ نام کتاب = فیضانِ فاروق اعظم رضی اللّہ عنہُ ( جِلد اوّل ) صفحہ = 33 تا