
45 سال کی لڑکی کو فرسٹ ایئر میں بھی نہیں دیکھا ہوگا ۔۔ اتنے سال ہوگئے، کبھی کسی لڑکی کو بس کی چھتوں پر بیٹھے نہیں دیکھا, کیا واقعی کوئی لڑکی ایسا کرسکتی ہے؟
پاکستانی معاشرے میں ہر چیز کا ادب احترام اور لحاظ اپنی جگہ ہے اور بالکل اسی طرح لوگوں کے لئے کچھ حدیں مخصوص ہیں جن میں رہتے ہوئے آگے بڑھنا سب کا حق ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاں فیمینزم کو بہت سہارا دیا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب تنقیدی نگاہ بھی بہت طاقتور بن چکی ہے۔ آج خواتین
ہر وہ کام کر رہی ہیں جن کے بارے میں ماضی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، پہلے کوئی لڑکی سائیکل چلائے تو اس کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ ایک ٹرینڈ ہے اور باحفاظت خواتین یہ کام بھی کر رہی ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے ہفتے سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں پاکستان کی مشہور و معروف اداکارہ ماہرہ خان ڈرامے میں ایک عام لوکل بس کی چھت پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی سفر کر رہی ہیں۔ اس تصویر پر تو جیسے ہنگامہ ہی مچا دیا گیا۔ کچھ لوگوں نے اس کو مثبت اقدام قرار دیا کہ چلو اچھا ہے کہ اب عورتوں کو بس میں دھکے کھانے نہیں پڑیں گے بلکہ چھت کے اوپر چڑھ کر بیٹھ کر آسانی سے سفر کر سکیں گی۔ کسی نے کہا کہ کبھی 45 سال کی عمر کی خاتون کو فرسٹ ایئر میں نہیں
دیکھا ہوگا، جیسے ماہرہ کو چھت پر دیکھا ایسے بیٹھے ہوئے۔ کسی نے کہا ان کو اس عمر میں بھی یہ سب کام کرنا زیب نہیں دیتا۔ ایک صارف نے تو انتہا ہی کردی یہ کہہ کر یہ آج پتہ چل گیا کہ ماہرہ خان پیسے کمانے کی خاطر بس پر بھی چڑھ گئی۔ اب ذرا حقیقت کی طرف نظر دوڑائیں تو کیا یہ سب کچھ سچ میں ہو سکتا ہے؟ ہمارے بس ڈرائیوروں کو بسیں بھگانے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ وہ چلتی بس سے لوگوں کو اتار دیتے اور چڑھاتے ہیں اور اندھا دھن گاڑی چلاتے ہیں، ایک مرد کو بس پر چڑھنے میں وقت لگتا ہے اور دیکھ بھال کر چڑھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ایک عورت کیسے بس کی چھت پر چڑھ سکتی ہے؟ کیا ہماری ڈرامہ انڈسٹری کو کچھ ٹرینڈی بنانے کے لئے وہ چیزیں دکھانے کی ضرورت پڑتی ہے جو حقیقت کا ضامن کہیں سے نہیں بن سکتی ہیں۔