رات کے کھانے کا ہضم نہ ہونا،ڈکار ،گیس اور اپھارے پن کا خاتمہ

کھانا یا پینا پیٹ میں گیس بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے، جب کوئی فرد کچھ کھاتا یا پیتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ مقدار میں ہوا بھی نگل لیتا ہے، جسے جسم ڈکار کی شکل میں خارج کرتا ہے یا وہ آنتوں میں جاکر گیس کی شکل اختیار کرلیتی ہے جو ریح کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ یعنی گیس کا اخراج

نظام ہاضمہ کی قدرتی سرگرمی ہے کیونکہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ معدے میں موجود بیکٹریا مختلف گیوں میں تبدیل کردیتے ہیں، جسے جسم خارج کردیتا ہے۔اکثر افراد کو پیٹ میں زیادہ گیس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی غذا میں تبدیلیاں کرتے ہیں، جیسے گوشت چھوڑ کر صرف سبزیوں تک محدود ہوجانا، مختلف غذائی گروپس سے دوری اختیار کرلینا یا نئی غذاﺅں کو آزمانا۔ اس طرح کے کیسز میں چند دیگر علامات جیسے دل متلانا، بدہضمی، قبض یا ہیضے کا بھی سامنا ہوسکتا ہے جس کے دوران جسم نئی غذا کے لیے خود کو ڈھال لیتا ہے۔کچھ غذائیں زیادہ گیس بننے کا باعث بنتی ہیں، جیسے زیادہ فائبر والی غذائیں، کیونکہ فائبر ایسا جز ہے جس کے ٹکڑے کرنا جسم کے لیے مشکل ہوتا ہے اور یہ چھوٹی آنت سے کلون میں بغیر ہضم ہوئے پہنچ جاتی ہیں، جہاں وہ اسے گیس کی شکل دے دیتا ہے۔ زیادہ فائبر والی غذائیں جیسے بیج، دالیں، سبزیاں اور اجناس وغیرہ معدے کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں مگر ان کا بہت زیادہ استعمال بدہضمی کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ اسی طرح نشاستہ دار غذائیں جیسے گندم، مکئی، آلو وغیرہ کا استعمال بھی جسم میں گیس کی

مقدار بڑھاتا ہے، جبکہ زیادہ سلفر والی غذائیں جیسے پیاز، لہسن اور گوبھی کی نسل کی سبزیوں سے بھی ایسا ہوتا ہے۔قبض کے شکار افراد کو گیس کے مسئلے کا بھی لازمی سامنا ہوتا ہے، کیونکہ غذائی کچرا کلون میں جمع ہوجاتا ہے جو اضافی گیس خارج کرنے لگتا ہے۔اگر کسی فرد کا معدہ دودھ یا اس سے بنی مصنوعات میں موجود قدرتی مٹھاس کو ہضم نہیں کرپاتا تو گیس کے مسئلے کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ جسم کا لیکٹوز کے ٹکڑے نہ کرپانا ہوتا ہے، کئی بار اضافی گیس سے ہٹ کر بدہضمی اور بہت زیادہ بدبودار ریح جیسی علامات بھی سامنے آتی ہیں۔جب کسی فرد کو اس مرض کا سامنا ہوتا ہے تو نظام ہاضمہ گلوٹین کو ہضم کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے، یہ وہ پروٹین ہے جو گندم میں پایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف مسائل جیسے بہت زیادہ گیس اور پیٹ پھولنے وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر گیس کی زیادہ مقدار کھانے کے دوران بنتی ہے جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ ہر نوالے کو کھانے کے دوران ہوا بھی نگل لیتے ہیں، تو بہت تیزی سے کھانے کی عادت حالات بدتر بناسکتی ہے۔ جلدی کھانے کے عادی افراد اپنی غذا

اچھی طرح چبائے بغیر نگل لیتے ہیں جس کی وجہ اس غذا کو ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کھانے کو اچھی طرح چبانا نظام ہاضمہ کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے، کیونکہ اچھی طرح چبا کر کھائی جانے والی غذا کو جسم کے لیے ٹکڑے یا گھلانا آسان ہوتا ہے، تو آرام سے لطف اندوز ہوکر کھائیں تاکہ آنتوں میں زیادہ گیس داخل نہ ہوسکے۔ اگر آپ کو اکثر گیس کا مسئلہ لاحق ہوتا ہے تو چیونگم سے گریز کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ اسے چبانے کے دوران لوگ لعاب دہن کے ساتھ کافی مقدار میں ہوا بھی نگل لیتے ہیں، جس سے آنتوں میں زیادہ گیس بن سکتی ہے۔ روزانہ 30 منٹ کی ورزش بھی جسم میں گیس کے اجتماع کی روک تھام میں مدد دے سکتی ہے، جسمانی سرگرمیاں نظام ہاضمہ کو متحرک کرسکتی ہیں جس سے دیگر مسائل جیسے قبض پر قابو پانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ فائبر ایسا جز ہے جو ہاضمے کی صحت کے لیے ضروری ہے مگر اس کا بہت زیادہ استعمال گیس کا مسئلہ بڑھاسکتا ہے، تو متوازن غذا کا استعمال اضافی گیس سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ پروبائیوٹیکس سپلیمنٹس نظام ہاضمہ میں صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا جیسے ہی ہوتے ہیں، جو ان بیکٹریا کی مقدار بڑھا کر جسم کے لیے مخصوص غذاﺅں کو گھلانا آسان بناتے ہیں، جس سے کچھ افراد میں اضافی گیس کے مسئلے میں کمی آسکتی ہے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.