جگر گوشہ رسول ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ پیش کیجئے ! فوری مراد پوری

ہمارے ایک بڑے سے بزرگ ہیں دارالعلوم کے مہتمم تھے قاری محمد طیب صاحب ؒ ایک بندہ ان کے پاس گیا کہنے لگا حضرت بہت مسائل پریشانیاں مشکلات ہیں بہت زیادہ غم دکھ بیان کئے دعافرمادیں فرمایا دعا بھی کرتا ہوں پر تجھے ایک تدبیر بھی بتاتا ہوں انہوں نے تو یہ لفظ فرمایا تھا کہ جتنا ہوسکے

سورۃ الاخلاص پڑھ کے سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کی روح ِ پُرفتوح کو ہدیہ کریں اور ان سے عرض کریں کہ سیدہ آپ کے ابا حضور آپ کی بات نہیں ٹالتے تھے سیدہ فاطمہ ؓ کی بات نہیں ٹالتے تھے میں ایک بڑے محدث کی بات کررہا ہوں بہت بڑے عظیم انسان کی بات کررہا ہوں بہت بڑے عظیم مصلح کی بات کررہا ہوں فرمایا کہ ایک تدبیر بھی بتاتا ہوں سورہ اخلاص پڑھ کر تعداد انہوں نے نہیں بتائی لیکن وہ عمل میں یہیں ایڈجسٹ کررہا ہوں اور آپ کو اس عمل کافیض بتارہا ہوں . اس واقعے کے حوالے کے ساتھ کہ ان کی روح کو ہدیہ کریں اور عرض کریں کہ سیدہ ؓ آپ کی بارگاہ میں یہ ہدیہ ہے آپ کی بارگاہ میں یہ تحفہ ہے اور آپ اپنے والد حضرتِ محمد ﷺ کی بارگاہ میں میرا یہ کام کہیئے وہ اللہ سے عرض کریں اور اللہ یہ میرا کام کردے

کیوں آپ کی سفارش آپ کے ابا نہیں ٹالیں گے یقین جانئے دنیا کا کوئی ناممکن مسئلہ مشکل مسئلہ وہ رشتوں کا ہو وہ رزق کا ہوں وہ صحت کا ہو وہ کاروبار کا ہو وہ معاش کا ہو وہ کوئی الجھن ہو کسی قسم کا مشکل ترین مسئلہ ہو یقین جانئے حل ہوجاتا ہے اور میں ایک لفظ لکھ رہا ہوں وہ لفظ سدا یادرکھئے گا ناممکن ممکن ہوجاتا ہے ۔کفر اور شرک کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں، وہ سب توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو ،سچی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے پشیمانی ہو، اس گناہ کو فوراً ترک کردیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر اس گناہ کی وجہ سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی ادائیگی یا تلافی کی کوشش شروع کردی جائے۔ یعنی اگر حقوق اللہ (نماز ،روزہ ،زکوۃ ،حج وغیرہ) ذمہ پرہیں، تو

انہیں ادا کرنا شروع کردے۔ اور اگر حقوق العباد میں کوتاہی کی ہو تو صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کرے یا اس سے معاف کروالے، بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا، حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، وہ کسی کو بے شمار گناہوں کے باوجود بھی معاف کرکے جنت میں داخل کرسکتاہے، اور اس میں وہ حق بجانب ہوگا، تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ رحمت اور معافی کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا عقل مندی نہیں، حماقت ہے، حدیث پاک میں ایسے شخص کو بے وقوف کہا گیا ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں اور آرزو لگائے رکھے کہ وہ کریم ہے معاف کردے گا، جب کہ عقل مند اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور آخرت کی تیاری کرے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ جس کام سے اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ نے ناراضی کا اظہار فرمادیا، اس کام کے قریب بھی نہ جائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.