
سامری دنیا کا سب سے خطرناک جادوگر کون تھا؟
حضرت موسی ؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے چالیس روز کے لیے طلب کیا۔ کوہ طو رپر اس کو ہم چلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اللہ پاک نے ان سے چالیس روز تک سخت محنت سے ریاضت کروائی۔ اس کے بعد اللہ نے انہیں تورات عطا فرمائی۔ اس کے بعد الواح دی گئیں جو پتھر کی تختیا ں ہوتی ہیں۔ جو احکام عشرہ ہیں
جو بنیا د ہیں۔ جیسا کہ سورت البقرہ شریعت محمد ی کی اساس ہے۔ویسے وہ شریعت موصلی کی اساس ہیں۔ جو حضرت موسی ؑ کو کو ہ طو پر پتھر کی تختیوں پرلکھی ہوئی ہیں۔ حضرت موسی ؑ کی غیر موجودگی میں سامر ی کو موقع مل گیا۔ اس نے گمراہ کرنے کے لیے ایک شعبدہ دکھایا۔ اب وہ شعبدہ کیا تھا ؟ آل فرعون کے جو زیو ر ہوتے تھے ۔ وہ بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس امانت رکھتے تھے۔ یعنی انہیں بھی اندازہ تھا کہ وہ بد دیانت نہیں تھے۔ جب وہ نکلے تو ساری چیز یں بھی ساتھ لے کرآگئے۔ اس نے کہا سامری سے ، یہ ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر ان کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی شکل بنا دی۔ اور اس میں کچھ ایسا کیا کہ اس میں سے ہوا گذرتی تھی۔ وہ اندر سے کھوکھلا تھا کہ اس سے آواز آتی تھی جیسے کوئی بچھڑا کی آواز نکلتی
ہو۔ اس نے کہا کہ یہ ہے تمہار ا خدا ۔ حضرت موسی ؑ کو مغالطہ لگا ہے ۔ بہرحال اس وقت کے کافی لوگوں نے بت پرستی شروع کردی۔ اب جب اللہ نے بتایا اے موسی ؑ ! تیر ی قوم فتنے میں پڑ چکی ہے۔ حضرت موسیؑ کے لیے جب اللہ نے کوہ طو ر پر وقت مقرر کیا تھا آپ اس مقررہ وقت سے پہلے پہنچ گئے ۔ جو سورت طحہ ٰ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اے موسیؑ ! تم اپنی قوم کو چھوڑ کر جلدی کیوں آگئے۔ ابھی تو وقت معین نہیں آیا۔ اب حضرت موسیؑ نے فرمایا: میں تو اس لیے جلدی آیا کہ تو راضی ہوجائے۔ فرمایا نہیں یہ جو عجلت ہے وہ ایسی خطا ہے تمہاری جو کہ سامری کو موقع مل گیا ہے کہ تمہاری قوم کو گمراہ کرسکے۔ اس کے بعد جب حضرت موسی ؑ اپنی قوم کے پاس واپس آئے ۔ سورت الاعراف کے اندر ہے میں بھوک سے م را جارہا ہوں۔ میں پیاس سے م را جارہا ہوں۔ اب دو الفاظ آگئے غضبانہ او رعاصفہ ۔ ایک جانب عضب ناک اور دوسری طرف بہت رنج اور غمگین کی
کیفیت ۔ چنانچہ جو الفاظ قرآن پاک میں آئے ہیں ۔ وہ اس جلالی طبیعت کا مظہر ہے۔ اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ کی سر کے بال پکڑ کر گھسیٹاتم نہ یہ کیا کیا ہے؟ میں تمہیں خلیفہ بنا کر گیا ہوں۔ تمہارے ہوتے ہوئے یہ کام ہو گئے۔ تم فوراً میرے پیچھے کیوں نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندیشہ یہ ہوا کہ آپ کہیں گے تم بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کر کے آگئے ہو۔ اس لیے برداشت کرتا رہا ۔ روکتا رہا۔ اس کے بعد جو قدم اٹھایا گیا وہاں پر ، فیصلہ کیاگیا۔ کہ بارہ قبیلوں میں سے جتنے قبیلوں نے یہ شرک کیا ہے اسی قبیلے کے لوگ توحید پر قائم رہیں ہیں اوروہ اپنے بھائیوں کو ق تل کریں۔ اور ذبح کریں۔ تو تورات کے مطابق ستر ہزار یہودی ق تل ہوئے ۔ یہی ق تل مرتد اسلام میں ق تل کی سز ا ہے۔ جو روشن خیال کا مغرب سے سند لینا چاہتے ہیں۔ تو مغرب کا تصور تو یہ ہے کہ تو یہ انسانی حقوق میں سے ہے۔ اگر ایک مسلمان کو عیسائیت پسند ہے تو وہ عیسائی ہوجائے۔ اس کا حق ہے۔ یہ تو تمہاری شریعت میں ہے۔ کہ ق تل کردیا جائے۔ یہ جو درحقیقت بنیادی حقو ق ہیں انسان تو اس کے خلاف ہے۔