
حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! اگر مجھے لوگوں کے سست ہونے کا ۔۔۔؟؟
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! اگر مجھے لوگوں کےسست ہونے کا ڈر نہ ہو اور میں تمہیں یہ بات کہون کہ اس خبر کو جا کر گلی بازاروں میں پھیلا دو اور چار اشخاص کی جنت کو گواہی دے دو کہ انہیں جنت میں جانے سے کوئی شے نہیں روک سکتی ۔ عرض کی حضور کون کون فرمایا:
ایک وہ عورت جس نے اپنی ساری محبتوں اپنے خاوند پر نچھاور کر دی اور وہ حال میں مری کہ اس کا خاوند اس پر راضی تھا ۔ جنت میں جانے سے اس کو کوئی شے نہیں روک سکتی اور دوسرا وہ شخص جس کے بچے زیادہ ہیں اور ذرائع آمدنی تھوڑے لیکن اس نے اپنے بچوں کےپیٹ میں حرام کا لقمہ نہیں جانے دیا اور تیسرا وہ شخص جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس کے والدین اس پر خوش ہوں اس سے راضی ہوجائیں اور چوتھا وہ شخص جس نے ایسی سچی تو بہ کی کہ گناہوں کی طرف پلٹنا اس کے لیے اتنا مشکل تھا جس طرح جانور کے تھن سے نکلا ہوا دودھ واپس نہیں جاسکتا وہ گناہوں کی دنیا میں واپس نہیں جاسکتا فرمایا: یہ چار ایسے شخص ہیں عمر اس بات کا اگر ڈر نہ ہو کہ لوگ سست پڑ جائیں گے ان چا ر اشخا ص کے بارے میں شہادت دے دو کہ یہ دنیا میں چلتے پھرتے جنتی ہیں۔ حدیث مبارک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی
موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا: اللہ کی قسم جس نے محمد ( ﷺ ) کو سارے جہاں کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا، اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا، یہودی (شکایت لے کر ) نبی کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ﷺ کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم ﷺ نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورتِ حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ ﷺ کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ نبی کریم ﷺ نے (فریقین کے بیانات سن کر ) فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ
میں بھی بے ہوش ہو کر گر جاؤں گا، پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بےہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بے ہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بے ہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بے ہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بے ہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بے ہوش ہو کر گر پڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا ) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔” اور حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی
پر ترجیح نہ دو” ( بخاری ومسلم)اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ” تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو”۔اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بے ہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ،
یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بے ہوش ہوجانے والوں میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بے ہوش ہی نہیں ہوں گے، حال آں کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو”۔