کمیٹی ڈالنا کیوں حرام ہے ؟

عام طور پر کمیٹی اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ ہرمہینے کچھ افرادمقررہ مقدار میں پیسے جمع کرواتےہیں اور کسی ایک کا نام منتخب کرکے جمع شدہ پیسے اسے دے دیتےہیں ، یوں آگے پیچھے تمام افراد کوایک ایک کرکے اپنے جمع کروائےہوئے پیسے مل جاتےہیں۔ اس انداز پر رہ کر یہ کمیٹی ڈالنا ، جائز اور درست ہے۔

البتہ کچھ کمیٹیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بولی لگائی جاتی ہے اور جو سب سے کم بولی لگاتا ہے بولی شدہ رقم اس کو دے دی جاتی ہے اور باقی جو رقم بچتی ہے وہ دیگر شرکاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ مثلاً کمیٹی کی جمع شدہ مجموعی رقم دو لاکھ روپے ہے اب اگر کسی نے سب سے کم بولی ایک لاکھ اسی ہزار روپے لگائی تو ان دو لاکھ روپے میں سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے بولی لگانے والے کو مل جائیں گے اور بقیہ بیس ہزار روپے دیگر ممبران میں تقسیم کردئیےجائیں گے لیکن کمیٹی لینے والے ممبر کو مجموعی طور پر دو لاکھ روپے ہی جمع کروانے پڑیں گے۔ یہ سود کی صورت ہے
، ایسی کمیٹی ڈالنا حرام و گناہ ہے۔کمیٹی کے ذریعے مالی مدد کا حصول ممکن بنانا کوئی نیا عمل نہیں بلکہ برس ہا برس پرانا ہے لیکن یہاں یہ بات ذہن

نشین رہے کہ کمیٹی کئی طرح کی ہیں ان میں سے صرف ایک جائز ہے بقیہ کمیٹیاں ناجائز اور جوا کھیلنے کے مترادف ہیں۔عمومی طور پر لوگ اپنی کسی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کمیٹیاں ڈالتے ہیں جس میں ممبران کی مخصوص تعداد مقررہ رقم ہر ماہ جمع کرواتی ہے یوں ایک خطیر رقم اکٹھی ہو جاتی ہے جو قرعہ اندازی کر کے کسی ایک رکن کو دے دی جاتی ہے تاہم قرعہ اندازی میں نام آنے والا ممبر بھی کمیٹی ختم ہونے تک اپنی ماہانہ کمیٹی بھرتا رہتا ہے۔لکی کمیٹی:لیکن کئی کاروباری حضرات ایسی کمیٹیاں بھی ڈالتے ہیں جنہیں ’’لکی کمیٹی‘‘ کہا جاتا ہے، اس کمیٹی میں جس ممبر کی کمیٹی کھل جاتی ہے وہ پوری رقم تو لے جاتا ہے لیکن پھر کمیٹی کی ماہانہ رقم بھرنے کا پابند نہیں ہوتا اسے لکی کمیٹی کہا جاتا ہے اور یہ جوا کھیلنے کی مانند ہے۔اس لیے لکی کمیٹی یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور کمیٹی ڈالنا اور اس پہ رقم حاصل کرنا جائز نہیں۔بولی کمیٹی:اسی طرح ایک

بولی کمیٹی ہوتی ہے جس میں قرعہ اندازی میں جس ممبر کا نام آتا ہے اسے کوئی دوسرا ممبر زیادہ رقم دے کر وہ کمیٹی لے لیتا ہے اور اس کمیٹی میں بھی جس جس کا نام قرعہ اندازی میں آتا جاتا ہے وہ کمیٹی سے باہر ہو جاتا ہے چنانچہ یہ کمیٹی بھی سراسر جوا اور سود ہے جو کسی طور جائز نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر کمیٹی کی یہ شکل ہوتی ہے کہ ہر مہینے لوگ آپس میں ایک متعینہ رقم جمع کرتے ہیں ، پھر قرعہ کے ذریعے مجموعی رقم ایک شخص کو دے دی جاتی ہے اوروہ شخص بھی بعد میں اپنی قسطیں جمع کرتا رہتا ہے ، اس طرح روپے جمع کرنا اور جس کا نام پہلے نکل آئے اسے مجموعی رقم دیدینا، اس میں کسی کا نمبر پہلے آتا ہے اور کسی کا بعد میں، نیز کسی کو رقم پہلے مل جاتی ہے اور وہ قسطیں بعد میں ادا کرتا رہتا ہے اور کسی کو بعض یا کل قسطیں اداء کرنے کے بعد رقم ملتی ہے ، نتیجتا کسی کو اُس کی جمع شدہ رقم سے زائد نہیں ملتی، تو باہمی رضامندی سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ، یہ باہمی تعاون و تبرع کی ایک شکل ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.