
”بیوی کو ایک حد تک پیار دو ۔ زیادہ پیار دو گے تو وہ پھر تمہیں اپنا غلام بنا کے رکھے گی۔ ایسی باتیں جو آپ کو کوئی نہیں بتا ئے گا۔“
قاضی شریع نے ایک بار امام شبعی سے کہا بنو تیمم کی عورت سے نکاح کیجئے بڑی سمجھدار ہو تی ہیں اور بڑی دلیل کے ساتھ یہ واقعہ سنا یا کہنے لگے ایک بار میں ایک گلی سے گزر رہا تھا ایک دروازے پر ایک گڑیا کو کھڑے دیکھا اس کے ساتھ میں ایک نہایت پری روح حسین و جمیل عورت بھی
کھڑی تھی مجھے پیاس نہیں تھی لیکن پیا سا بن کر ان کے پاس گیا اور پانی ما نگا بڑھیا نے پو چھا آپ کو کون سا مشروب پسند ہے میں نے عرض کیا جو بھی میسر ہو پیش کر دیجئے اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ جاؤ مسافر کے لیے دودھ لے آؤ جب بیٹی چلی گئی تو میں نے بڑھیا سے پوچھا یہ لڑکی خالی ہے یا مجبور ہے۔ یعنی اس کا نکاح ہو گیا ہے یا نہیں اسے کسی نے پیغامِ نکاح دے دیا ہے یا نہیں؟ ابھی اس کی منگنی ہوئی ہے یا نہیں؟ بڑھیا نے کہا ابھی وہ لڑکی خالی ہے میں نے اس سے شادی کی پیشکش کر دی بڑھیا نے کہا کہ فلاں اس کے چچا ہیں ان سے جا کر بات کرو۔ میں نے اس کے چچا سے بات کی تو اس نے حامی بھر لی اور میرا پیغامِ نکاح اس لڑکی کے لیے منظور کر لیا اتنا سب کچھ ہو جا نے کے بعد مجھے خیال آیا کہ جلد پازی ہو گئی میں نے یہ نہیں سوچا کہ بنو تیمم کی عورتیں بڑی سخت دل ہوتی ہیں۔ حسن پر اس قدر قربان ہو جا نا کوئی اچھا کام نہیں
ہوا لیکن میں نے کہا کہ جو ہوا سو ہوا اگر وہ ٹھیک رہی تو رکھا جا ئے گا ورنہ ط ل ا ق دے دی جا ئے گی کہتے ہیں کہ جب وہ لڑکی میرے گھر آ ئی میں کمرے میں داخل ہوا اور وضو کر کے دو رکعت نفل نماز پڑھنے لگا جب میں نے سلا م پھیرا اور مڑ کر دیکھا تو وہ لڑکی بھی میرے ساتھ میرے پیچھے صلوۃ پڑھ رہی تھی میں نے سوچا یہ تو بہت اچھی لڑکی ہے اس کے گھر والوں نے اس کی بڑی شاندار تر بیت کی ہے۔ خلوت ہوئی اور شریع نے اس لڑکی کی طرف ہاتھ بڑ ھا یا تو اس لڑکی نے کہا ٹھہرئیے پھر وہ حمد و صلوۃ کے بعد یوں گو یا ہوئی میں اس گھر میں اجنبی عورت ہوں مجھے آپ کے اخلاق او ر پسند نا پسند کا پتہ نہیں ہے لہٰذا آپ مجھے یہ باتیں بتا دیجئے آپ اپنی قوم کی کسی لڑکی سے شادی کر سکتے تھے اور میں بھی اپنی قوم کے کسی آدمی سے بیائی جا سکتی تھی لیکن اللہ پاک کا فیصلہ اور اس کی تقدیر کا فیصلہ اٹل ہے آج آپ میرے مالک ہیں چاہیں تو اچھے انداز میں میرے ساتھ رہیں اور چاہیں تو میرے ساتھ برا سلوک کر یں۔