
جھگڑے پر پڑوسی نے محلہ دار کے قربانی کے جانور پر تی-زاب پھینک دیا
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پڑوسیوں نے جھگ-ڑے کے بعد انتقام ایک دوسرے کے قربانی کے جانور سے لے لیا۔کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر 8 میں پڑوسیوں نے جھگ-ڑے کا انتقام ایک دوسرے کے قربانی کے جانور سے لیا۔ جھگ-ڑے کے بعد ایک پڑوسی نے دوسرے کی گائے پر تی-زاب پھینک دیا۔
شکایت پر ایک پڑوسی کو حراس-ت میں لے لیا گیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی وکریمی نہ صرف یہ کہ انسانوں کے ساتھ مخصوص تھی۔ ؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمة کی وسعت نے جانوروں کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کی اور ان کو اپنے رحم وکرم کے سایہ سے حصہ وافر عطا کیا، جانوروں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برتاوٴ اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تاکید ،ان کے ساتھ بہترین سلوک کی دعوت کی روشنی میں اپنے جانوروں کے ساتھ برتاوٴ کا بھی جائزہ لیں کہ کیا ہمارا جانوروں کے ساتھ وہی برتاوٴ ہے جس کی تاکید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے ، یاہم جانوروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے کر عذاب اور وعیدوں کے مسحق بن رہے ہیں؟ اللہ کابڑافضل ہے کہ اللہ عزوجل نے چھوٹے سے لے کر بڑے جانور تک کو ہمارے تابع اور زیردست کردیا ہے ، ایک چھوٹا سابچہ ایک بڑے اونٹ کی مہار تھامے لیے جاتا ہے، یہ بس اللہ عزوجل کی کرم فرمائی اورانسانیت کے ساتھ اس کا فضل ہے کہ ایک بڑے جانور کو ایک چھوٹا بچہ بھی اپنے تابع کیے دیتا ہے ، ورنہ یہ ضعیف اور ناتواں انسان کی کیا حیثیت کہ وہ اس قدر بڑے اور قوی ہیکل ، تند ومند اس سے کئی کئی گنا بھاری بھرکم جسم وجثہ کے مالک جانوروں کو رام کرسکے؟ جانوروں میں خیر وخوبی جانورں کی اہمیت اور ان خوبیوں اور خصوصیات کو بتلانے کے لیے یہ بتلادینا کافی ہے کہ قرآن کریم نے متعدد جانوروں اورحیوانات کاتذکرہ کیا ہے ، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ کئی ایک سورتین جانوروں کے نام سے موسوم ہیں جیسے :سورة البقرہ(گائے )، الا ٴنعام(چوپائے)، النحل (شہد کی مکھی)، النمل (چیونٹی)، العنکبوت (مکڑی)، الفیل (ہاتھی)۔
اور ایک جگہ اللہ عزوجل نے جانوروں کے فوائد وخصائص اور ان کے منافع کو یوں بیان کیا : ”اور اس نے چوپائے پیدا کیے ، جن میں تمہارے لیے گرم لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں،ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاوٴ تب بھی اور جب چرانے لے جاوٴ تب بھی،اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم آدھی جان کیے نہیں پہنچ سکتے تھے ، یقینا تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔“ (النحل : ۵-۸)۔ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جانوروں کے صفات حمیدہ اور ان کے معنوی اور اخلاقی خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ احسان اورسلوک کا حکم کیا ہے ، گھوڑے کے تعلق سے فرمایا: ”گھوڑے کے ساتھ روزقیامت تک خیروابستہ ہے“ (مسلم : باب الخیل فی نواصیہا : حدیث: ۴۹۵۵)اور ایک روایت میں فرمایا:”اونٹ اپنے مالک کے لیے عزت کا باعث ہوتاہے اور بکری میں خیر وبرکت ہے“(ابن ماجة :باب اتخاذ الماشیة ، حدیث:۲۳۰۵)اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”مرغ کو گالی نہ دو چونکہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے ۔“(ابوداوٴد: باب ما جاء فی الدیک ، حدیث:۵۱۹۱) جانوروں کے ساتھ احسان وسلوک اجر وثواب کاباعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور اس کو اجر وثواب کاباعث بتلایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی
کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے ، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔(مسلم: باب فضل ساقی البہائم، حدیث:۵۹۹۷) جانوروں کے ساتھ بدسلوکی پرآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذکرکردہ وعیدیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانورں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور بدسلوکی کوعذاب وعقاب اور سزا کی وجہ گردانا او رانتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا او رانسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے؛ چنانچہ حضرت امام بخاری نے روایت نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑ دیتی کہ چر چگ کر کھائے(مسلم : باب تحریم قتل الہرة : حدیث: ۵۹۸۹)حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کو دیکھ کر فرمایا :اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)اور ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)اور ایک روایت میں ہے کہ غیلان بن جنادة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ پر آیا جس کی ناک کو میں نے داغ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : اے جنادہ ! کیاتمہیں داغنے کے لیے صرف چہرے کا عضو ہی ملا تھا، تم سے تو قصاص ہی لیا جائے(مجمع الزوائد:باب ما جاء فی وسم الدواب،حدیث :۱۳۲۴۳)